recluse_writes

Add To collaction

09-Oct-2022 حسرت

ازقلم مرحاشہباز
عنوان حسرت

"بٹیا تُو تو فرشتہ ہے فرشتہ۔ تُو رب کی ڈھیروں ڈھیر رحمت لیے اِس گھر میں آٸی تھی۔ تُو تو میری نازک پری ہے۔ میرا دل نہیں مانتا کہ تُو کراٹے سیکھے۔ ہاتھ پیر پہلے ہی کمزور ہیں، کوٸی ہڈی ٹوٹ گٸ تو میں کیا کروں گا۔" ضعیف باپ نے اُس جوان بیٹی کو سمجھنے کی بجاۓ لاڈ سے ہر بار کی طرح اِس بار پھر سمجھایا جو اپنے سادہ سے باپ کو واضح الفاظ میں یہ نہیں بتا پا رہی تھی کہ ملک میں حوس کے پجاری بڑھ رہے ہیں۔ ماں اپنے خالق کے پاس جا چکی تھی اور بہن بھاٸی تھے نہیں۔ سو اُسے اپنی حفاظت آپ کرنا تھی۔ وہ ادب اور حیا کے پیشِ نظر چپ سادھے رہی۔ 
                 بابا کو خبروں کی سمجھ نہ آتی تھی۔ دماغ کے کٸ حصے مفلوج ہو چکے تھے۔ اکثر اوقات بات سمجھنے سے قاصر ہوتے۔ جیا صبح کی خبروں میں اپنے علاقے کی جانب سیلاب کے ریلے کا شدت سے آنا سن چکی تھی۔ اسی لیے اب پریشانی کے عالم میں گھری بیٹھی تھی کہ اسی دوران کچھ لوگ آۓ اور خدشے والے مقامات سے لوگوں کو محفوظ مقام تک لے جانے لگے۔ تین چار روز بھوک میں گزارنے کے بعد کچھ امدادی ٹیمیوں نے یہاں کا رخ کیا۔  بابا کٸ روز کی بھوکے کے باعث نقاہت کے نتیجے میں حرکت کرنے سے عاری تھے سو جیا کو راشن لینے بھیج دیا۔ وہ خیمے سے نکلی اور ٹیموں کے پاس پہنچی۔ 
   "بی بی پہلے سرپرست کا نام ادھر لکھواٸیں۔" ایک کاریگر تیز تیز کام کرتے ہدایت دینے لگا۔ وہ مڑی اور نام لکھوانے چلی ہی تھی کہ جھٹکے سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گٸیں۔
آہ اُس کا پیچھا کِیا جا رہا تھا جانے کب سے۔
 "بابا۔۔۔ بابا۔۔۔" زمین پر بابا گرے اُسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ وہ اِن جسم فروشوں سے اپنے باپ کو بچا لے جس کے ناتواں اعضا بھی بیچنے کا سودا کیا جا چکا تھا۔ اور جیا بے چاری۔۔۔ وہ اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی جس نے اُس کی تمنا کو حسرت بنا دیا مگر تکمیل تک نہ پہنچایا اور آج اسی باعث وہ معاشرے کے اُن افراد کے آگے جھکنے پر مجبور تھی جو اُس بوڑھے جسم کے کمزور اعضا کی قیمت عزت کی بولی کے  ساتھ لگا رہے تھے۔ مگر وہ مزاحمت کرنا تو درکنار، ہاتھ تک نہ اُٹھا سکتی تھی۔ ”بابا آپ ان کے ساتھ واپس چلے جاٸیں۔ میں راشن لے کر آتی ہوں۔ یہ آپ کو محفوظ مقام تک لے چلیں گے۔“ باپ کے آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہی وہ آگے بڑھ گٸ۔ ”کاش آپ مجھے سیکھنے دیتے بابا۔“ یہ وہ آخری سوچ تھی جو تاریک کوٹھری کی جانب ایک وحشی کے پیچھے چلتے ہوۓ اُس کے حسرتوں بھرے ذہن میں ہتھوڑے سے مسلسل ضربیں لگا رہی تھی مگر وہ بے بس لڑکی، حسرتوں تلے دبتے، زمیں بوس ہوتی جا رہی تھی۔

   17
6 Comments

Mamta choudhary

11-Oct-2022 08:53 PM

👌👌👌👌

Reply

Muskan Malik

11-Oct-2022 08:36 PM

بہت عمده🥰🥰🥰🥰

Reply

Gunjan Kamal

10-Oct-2022 08:19 AM

👌👏🙏🏻

Reply